1. ہوم/
  2. مضامین/
  3. بلڈ پریشر

بلڈ پریشر

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں بلڈ پریشر کے مرض کا شکار لوگوں کی تعداد ایک ارب اٹھائیس کروڑ ہے۔ جب کہ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق پاکستان میں ہر بیس میں سے نواں شخص ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی افراد میں یہ خاموش قاتل ثابت ہو تا ہے۔ خون کا دباؤ، بلڈ پریشر جسے مختصراً BP بھی کہتے ہیں۔ اس دباؤ کا نام ہے جس کا سامنا دل کو اپنے سکڑنے اور پھیلتے وقت خون کی نالیوں کی مزاحمت کی وجہ سے کرنا پڑتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہماری بائیں طرف اہم ترین عضو دل بنایا ہوا ہے۔ اس میں بہت مضبوط پٹھے موجود ہیں۔ دل کا کام یہ ہے کہ یہ زور سے پھیلتا ہے اور سکڑتا ہے جب یہ پھیلتا ہے تو خون اس میں آتا ہے اور جب سکڑتا ہے تو خون باہر نکلتا ہے۔ دل اپنی ہر حرکت میں 57cc خون نالیوں میں داخل کرتا ہے دل کے سکڑنے والی حرکت کو انقباض systole کہتے ہیں۔ اور پھیلنے یا ڈھیلا چھوڑنے والی کیفیت Diastole کہلاتی ہے۔

دل کی ایک منٹ کی دھڑکن اگر 80 مرتبہ ہو تو وہ ہر ایک منٹ میں 4560cc خون Aorta میں داخل کرتا ہے۔ دل کی ہر حرکت سے شریانوں میں نیا خون داخل ہوتا ہے۔ نالیوں میں پھیل جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور نئے خون کو وصول کرنے کے بعد یہ وسعت لہر کی طرح دل سے لے کر جسم کی آخری شریان تک پھیل جاتی ہے۔ شریانیں نئے خون کو وصول کرنے سے پھیلتی ہیں۔ ان کے پھیلاو کی لہر کو ان پر ہاتھ رکھ کر محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس لہر کو ہی نبض کہتے ہیں۔

دل کے سکڑنے کے نتیجے میں خون کو دل کے دائیں طرف کا حصہ پھیپھڑے میں پہنچاتا ہے جہاں آکسیجن مل جانے کے بعد وہ صاف ہو جاتا ہے۔ وہ خون پھر دل کے بائیں طرف واپس آتا ہے۔ اور دل کے سکڑنے پر یہ خون پورے جسم میں پھیلتا ہے۔ ایک عام آدمی کے جسم میں 5 لیٹر کے قریب خون ہوتا ہے۔ اس مقدار میں 1۔ 5 لیٹر دل اور پھیپھڑوں میں گردش کرتا ہے بقایا 3۔ 5 لیٹر جسم میں گردش کرتا ہے۔ اور اس کی60 فی صد مقدار وریدوں میں ہوتی ہے۔ کیونکہ وریدوں کے ذریعے خون واپس دل کی طرف جاتا ہے تو اس کی رفتار سست ہوتی ہے۔

خون کو جسم کا ٹرانسپورٹ سسٹم بھی کہہ سکتے ہیں خون دراصل آکسیجن اور انتڑیوں سے خوراک کو پورے جسم میں ہر سیل تک لے کر جاتا ہے۔ اور اسی طرح جسم کے فاسد مادوں کو بھی باہر نکالنے کے لیے ان کو اصل مقام تک پہنچاتا ہے۔

تو ہوتا ایسا ہے جب دل سکڑتا ہے اور خون کو نالیوں میں بھیجتا ہے تو نالیوں میں ایک پریشر پیدا ہوتا ہے اور اس پریشر کو اوپر والا پریشر Systolic pressure کہتے ہیں۔ خون کی ہر نئی مقدار داخل ہونے کے بعد دھڑکن کی طاقت کی وجہ سے شریانوں پر زیادہ دباو ڈلتا ہے۔ اس لیے اوپر پریشر عام طور پر پارہ کے 120ملی میٹر کے قریب ہوتا ہے۔ لمحہ بھر میں نئی مقدار آگے چلی جاتی ہے اور دل کے عضلات آرام میں چلے جاتے ہیں اور خون واپس آتا ہے۔ شریانوں میں پریشر کم ہونا شروع ہوتا ہے۔ اور جس جگہ پر آ کر سب سے کم ہوتا ہے اس کو نیچے والا Dystolic prssure کہتے ہیں۔ اورعام حالات میں یہ پارہ کے 80 ملی میٹر کے قریب ہوتا ہے۔

جسم میں گردش کرنے والے خون کی

مقدار۔۔ 5لیٹر

درجہ حرارت۔ 37c

تیزابیت۔ 7.45

ہیموگلوبین (مرد)۔۔ 12سے18گرام

ہیموگلوبن (عورت)12سے 16 گرام

خون کے سرخ ذرات (مرد)۔ 4.5 سے5.5 ملین مکعب ملی میٹر

خون کے سرخ ذرات(عورت)۔ 3.4سے4.5ملین فی مکعب ملی میٹر

اس سارے عمل کو ہم بیماری اس وقت تصور کرتے ہیں جب خون کی شریانوں میں یہ پریشر بڑھ جاتا ہے اور یہ مختلف اعضاء تک بہت زور سے پہنچتا ہے۔ اور مسلسل زور سے پہنچتے رہنے سے کچھ اعضاء کا نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے جسم کے جو بہت اہم حصےاس پریشر سے نقصان اٹھاتے ہیں ان میں گردے اور آنکھیں ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ کے اندر خون کی شریانوں پر برا اثر ہونا شروع جاتا ہے۔ دل کی اپنی شریانوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ اس پریشر کو کنٹرول کیا جائے۔

اطباء حضرات اس حالت کو جو نبض میں محسوس ہوتی ہے قوی نبض کے نام سے پکارتے ہیں۔ یعنی نبض کی ٹھوکر بہت زور اور قوت سے انگلیوں پر لگتی ہے۔ مقام کے لحاظ سے ایسی نبض مشرف کہلاتی ہے۔ عضلاتی کہلاتی ہے۔ اور مزاج سرد خشک ہو تا ہے۔

معلومات بلڈ پریشر

بلڈ پریشر ہمیشہ پارہ سے چلنے والے آلہ کی مدد سے دیکھا جانا چاہیے اور اسے دکھانے سے پہلے مریض 10 منٹ آرام سے بیٹھ جاے۔ اگر لیٹنے کی گنجائش ہو تو 5منٹ کافی ہیں۔

اوپر کا بلڈ پریشر نیچے والے سے 50 سے زیادہ ہو تو غیر طبعی ہے۔ عموماً عورتوں کا بلڈ پریشر 10 ملی میٹر کم سمجھنا چاہئے۔ نیچے والا بلڈ پریشر اگر زیادہ ہے تو گردے خراب ہیں۔ اوپر والا اگر زیادہ ہو تو کولیسٹرول یا خون میں جوش زیادہ ہے۔ اوپر اور نیچے والے دونوں میں اگر گڑ بڑ ہو تو دل اور گردے دونوں میں پرابلم ہے۔ اگر نیچے والا کم ہے تو گردے کمزور ہیں اور اگر اوپر والا کم ہے تو دل کمزور ہے۔

وجوہات

اگر ہم ٹیکنیکل تفصیل میں جائے بغیر بلڈ پریشر کی وجوہات پر بات کریں تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کے پٹھے زیادہ موٹے ہو جاتے ہیں اور وہ خون کو بہت زیادہ زور سے دھکیلتے ہیں۔ شروع میں شریانیں اس قدر تنگ ہو جاتی ہیں کہ خون کا فقدان دل کے اپنے جسم کو کم سے کم مقدار میں اتنابھی نہیں پہنچتا جتنا قلب کے عضلات کا اپنا فعل جاری رکھنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ اور قلب میں آکسیجن کا تقاضا بہت شدید ہو جاتا ہے۔ تو دل کو اپنے افعال جاری رکھنے کے لیے خون کی رسد بہت غیر یقینی ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں وجع القب خفیف کی حالت ہر وقت رہتی ہے۔

ہماری شریانوں کی پھیلنے اور سکڑنے کی استطاعت کمزور ہو جاتی ہے شریانیں سخت ہو جاتی ہیں جب یہ خون پریشر کے ساتھ آتا ہے تو یہ پھیل نہیں سکتی۔ شریانوں میں پریشر بڑھتا ہے۔ کیونکہ کہ اگر شریان پھیل جاے تو پریشر کو سنبھال سکتی ہے۔ لیکن سختی کی وجہ سے پھیل نہی سکتی اور پریشر کے بڑھنے کی وجہ بنتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

کولیسٹرول کا بڑھنا، سگریٹ نوشی۔

کچھ گردوں کی ایسی بیماریاں ہیں جس کی وجہ سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ بہت زیادہ تیل والی اشیاء کا استعمال کرنا بھی اس کی وجہ بن سکتا ہے۔

نمک کا زیادہ استعمال بھی ہائپر ٹینشن کی وجہ بن جاتا ہے۔ کھانے ذائقہ کے لیے مزید نمک ڈالنے کی عادت بلڈ پریشر کی طرف لے جاتی ہے۔ نمک زیادہ استعمال کرنے سے جسم میں ایسے مرکبات جمع ہونے شروع جاتے ہیں جن کی وجہ سے بلڈ پریشر تیزی سے بڑھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک دن میں 2300 ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہی کرنا چاہئے، (جو تقریباً ایک چائے کا چمچ بنتا ہے)۔

مرغن کھانے کھانا بھی بلڈ کے پریشر کو بڑھانے کی ایک اہم وجہ ہے۔ حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی چکنائیاں جیسے کہ گھی مکھن چربی آرام طلب افراد کی خون کی نالیوں میں جم کر ان کو تنگ یا ان کی لچک کو متاثر کرتے ہیں۔ نالیاں جب موٹی ہو جائیں تو پریشر میں اضافہ ایک لازمی نتیجہ ہے۔

بلڈ پریشر کی ایک وجہ سٹریس اور ٹینشن بھی ہے۔ ذہنی دباؤ، تفکرات اور پریشانیاں بلڈ پریشر پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ اور پھر بلڈ پریشر بڑھ جانے کا الگ سے غم۔ یہ احساس مصیبت اور دہشت کا باعث بنتا ہے۔ ایک دفعہ جب یہ طے ہو جائے کہ کسی کا پریشر زیادہ ہے تو اسے علاج پر توجہ دیتے ہوے اس بات کو بھولنے کی کوشش کرنی چائیے اسے بار بار چیک کروانا ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شور بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے آس پاس میں شور ہو یا ہمسایہ سے آنے والی آوازیں بھی پریشر میں اضافہ یا بے آرامی پیدا کر سکتی ہیں، شراب کے رسیا افراد اکثر بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں۔

موٹاپے کا شکار افراد آسانی سے بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں۔ اکثر خواتین کو حمل کے دوران بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔

غدد میں انتہائی تحریک عضلات میں میں انتہائی تحلیل اور اعصاب میں انتہائی سکون ہوتا ہے۔ اس تحریک میں خون میں جوش اور حرارت بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ دل کا بایاں بطن پھیل جاتا ہے اور شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔

علامات

سر کے پچھلے حصے میں درد ایک عام شکائت ہے۔ چڑچڑا پن بلاوجہ غصہ آنا اور گبھراہٹ عام طور دیکھی گئی ہے۔ کام کاج میں دل نہی لگتا۔ کسی کی بات برداشت نہی ہوتی۔ پیشاب میں البیومن آنے لگتی ہے۔

بلاوجہ نکسیر پھوٹنے لگتی ہے۔ مریضوں کے خون میں تھوک بھی آسکتا ہے۔ گردوں کی کارگزاری دن بدن خراب ہونے لگتی ہے۔ جس کی انتہا گردے فیل Renal Failure ہوتی ہے۔۔ دل کا دورہ بھی پڑ سکتاہے۔

بلڈ پریشر کے علاج کے سلسلے میں وزن کم کرنا بہت ضروری ہے اور یاد رکھیے آئیل کو اپنے معمول کے کھانے سے نکالے بغیر آپ اپنا وزن کم نہیں کر سکتے۔ ایک ماہ آپ اس پر سختی سے عمل کریں آپ کا وزن کم ہونے لگے گا۔ قریب پانچ سے سات کلو تو ضرور کم ہوگا۔ وزن کم ہونے سے آپ کی دل کی بیماریاں کنٹرول ہوں گی۔ شوگر اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں کم ہوں گی۔ بلڈ پریشر نارمل ہوتا جائے گا۔

بڑھتے وزن کی پیمائش اس طرح کی جا سکتی ہے۔ کہ کہ اگر ایک نوجوان کی ویسٹ کی پیمائش 40 انچ (102 سینٹی میٹر) سے زیادہ ہے اور ایک عورت کی ویسٹ اگر 35 انچ (89سینٹی میٹر) سے زیادہ ہے تو بلڈ پریشر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے طبلیے نمک کا استعمال کم کرنا ہوگا۔ کھانا پکاتے وقت نمک کم استعمال کریں۔ کھاتے ہوے ذائقہ کے لیے مزید نمک نہ ڈالئے۔ ایک دن میں ایک تندرست شخص کو 1500 ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہ کر نا چاہئے۔

ہر روز کم از کم تیس منٹ کی ورزش بھی خون کے چڑھاؤ کو اعتدال پر لانے کے لیے بہت موثر ہے۔ پیدل چلیں۔ کم از کم دس ہزار قدم ہر روز چلنا فرحت بخش ہونے کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول کو کم کرنے میں بہت معاون ہے۔ ہرروز اتنا نہ چل سکیں تو ہفتہ میں ایک بار ضرور لمبی واک کریں۔

سموکنگ نہ کریں۔ اس سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔ سموکنگ چھوڑ کر آپ نہ صرف بلڈ پریشر بلکہ دل کی بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ دماغی تناؤ اور ٹینشن کو کم کریں۔ سارا دن کی مصروفیت کو ایک منظم طریقے سے سر انجام دیں۔ فراغت ایک نعمت ہے۔ اپنے لیے ٹائم نکالیں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ پوری نیند لیں۔ تفریح کے لیے وقت نکالیں۔

پانی کااستعمال زیادہ کریں۔ اس سے نہ صرف خون پتلا ہوتا ہے بلکہ جسم سے فاسد مادے خارج ہوتے ہیں۔ گردے اپنا فعل خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے ہیں۔

معدہ کو خراب نہ ہونے دیں۔ اس لیے ہمیشہ صحت مند خوراک کا انتخاب کریں۔ بازاری چٹ پٹے اور تیل میں تر بتر کھانے نہ صرف جگر بلکہ آپ کے جسم کے باقی افعال کو بھی سست کرتے ہیں۔ میٹابولزم سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کرتا اور آپ موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

فائیبر کا استعمال زیادہ کریں۔ جیسے اسپغول کا چھلکا، جو کا دلیہ، سنگترہ۔ مسمی اور امرود وغیرہ۔۔

نسخہ برائے بلڈ پریشر۔۔

  • اسرول 10 گرام
  • صندل سفید 5 گرام
  • کشنیز 5 گرام
  • الائچی سبز 5 گرام

تمام ادویات کو کوٹ چھان کر درمیانے سائز کے کیپسول بھر لیں۔ ایک ایک کیپسول دن میں تین بار پانی سے کھائیں۔ انشاءللہ خون کا پریشر نارمل رہے گا۔ ڈپریشن کے مریضوں کو اس نسخے کے استعمال سے نیند گہری آتی ہے اور دماغ سے خیالات نکل جاتے ہیں۔ چڑچڑا پن ختم ہوتا ہے۔

مزید۔۔

  • سونف 6 گرام
  • کشنیر خشک 6گرام
  • طباشیر 6گرام
  • دانہ الائچی خورد 10گرام
  • سفید چینی 20گرام

تمام ادویات کو کوٹ چھان کر سفوف بنالیں آدھا چمچ صبح اور آدھا چمچ شام کو پانی کے ساتھ استعمال کریں شوگر پیشنٹ چینی نکال دے اس نسخہ کے استعمال سے تیزابیت خون کا دباؤ اور جسمانی تھکن دور ہوگی قبض اور انتڑیوں کی سوزش میں بھی بہت مفید ہے۔