1. ہوم/
  2. مضامین/
  3. پانی

پانی

پانی سے زندگی شروع ہوئی ہے اور وہی اس کا غالب جزو ہے۔ ایک عام انسان کو اپنی صفائی گھر کی صفائی کھانا پکانے اور پینے کے لیے روزانہ کئی گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقتی طور پر اس کی مقدار کو کم تو کیا جا سکتا ہے، لیکن مستقل ایسا کرنے سے تندرستی متاثر ہوتی ہے۔ رفع حاجت کے بعد صاف پانی سے جسم کو دھونا اسلام کی ایجاد ہے، پتھروں مٹی کے ڈھیلوں یا کاغذوں سے غلاظت صاف نہیں ہوتی۔

پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں۔ اس کو بے رنگ ہی کہا جاتا ہے لیکن زیادہ مقدار میں بہرحال نیلگوں نظر آتا ہے۔ پینے کے لیے پانی حاصل کرنے کے عام ذرائع دریا، ندی، نالے، نہریں، تالاب، جھیلیں، چشمے اور کنویں ہیں۔ سمندر اور دریاؤں کے کبھی قریب زیر زمین پانی کی سطح زیادہ گہری نہیں ہوتی اس لیے معمولی کھدائی پر پانی نکل آتا ہے۔

دنیا کے کچھ مقامات ایسے ہیں کہ جہاں زیر زمین پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ اس کو جہاں سے بھی زمین کمزور محسوس ہو اچھل کر باہر نکل آتا ہے اسے چشمہ کہتے ہیں۔ سطح زمین کے نیچے ہر قسم کی مٹی اور معدنیات پائی جاتی ہیں ہر علاقہ کی زمین کے نمکیات اور معدنیات کی آمیزش ہوتی ہے، جیسے نمک کاربونیٹ میگنیشیم وغیرہ گرم پانی کے چشمے زیر زمین درجہ حرارت کی زیادتی کی وجہ سے گرم ہوتے ہیں۔

بنیادی طور پر پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے یہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر جم کر برف بن جاتا ہے 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابلنے لگتا ہے خواہ کتنی ہی آگ دیں پانی کا درجہ حرارت 100 سے تجاوز نہیں کر سکتا یہ بھانپ بن جاتا ہے۔

پانی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں جن عمدہ چیزوں کے مہیا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ان میں سے ایک پانی ہے۔

(وہاں پر ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی خراب نہ ہوگا اور دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا ذائقہ کبھی خراب نہ ہوگا)۔

ہمارے آخری نبی ﷺ نے جہاں جسمانی صفائی غسل برتنوں کی صفائی لباس کی صفائی کے لیے پانی کو مفید قرار دیا ہے وہاں اس کے استعمال میں کفایت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہ ایک ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ اگر وضو کرتے وقت تمہارے سامنے بھرا ہوا دریا بھی ہو تو پھر بھی پانی ضائع نہ کرو۔

حیوانات اور نباتات کے اجسام کا معقول حصہ پانی پر مشتمل ہے جسم انسانی کا دو تہائی پانی ہے لیکن یہ جسم کے اندر خالص صورت میں نہیں ملتا یہ نامیاتی مرکب کی صورت میں ہوتا ہے جیسے کہ خون کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔

لیکن اس کے ساتھ لحمیات خون کے خلیات اور نمکیات ہوتے ہیں اس طرح معدہ اور منہ کے لعاب آنسو وغیرہ بھی پانی پر مشتمل ہے پسینہ اور دوسری خارج ہونے والی چیزوں کے ذریعے پانی کی کثیر مقدار نکل جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی رہتی ہے کہ جسم میں پانی کی آمد اور رفت کے درمیان ایک باقاعدہ تناسب رہے۔ اگر اس حال کے یا ہیضہ کی وجہ سے جسم سے پانی کی مقدار نکل جائے تو اس کیفیت کو ڈی ہائڈریشن کہتے ہیں پانی نکلنے سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے پیشاب کا اخراج کم یا بند ہو جاتا ہے جس سے زہریں جسم میں سرایت کرکے موت کا باعث بن سکتی ہیں۔

ہائیڈروتھراپی پانی سے علاج کرنے کا ایک طریقہ ہے کہتے ہیں گرم پانی کے بڑے ٹپ میں مریضوں کو مختلف طریقوں سے بٹھایا جائے تو گردوں کی پتھریاں نکل جاتی ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے بخار کا بہترین علاج پانی ڈالنا قرار دیا۔ اپنی علالت کے دوران انہوں نے جسم پر کئی مرتبہ پانی ڈلوایا۔ جنگ احد میں حضور ﷺ کے زخموں کا علاج انہیں بار بار پانی سے دھو کر کیا گیا اس طرح زخموں کی آلائش دور ہوگئی اور وہ جسم کی قوت مدافعت کے زور پر جلد مندمل ہو گئے۔

چوٹ پر برف ملنے سے ورم نہیں آتا۔

24 گھنٹے میں ایک صحت مند شخص کو آٹھ گلاس پانی پینا ضروری ہے مگر موسم اور طبیعت کے لحاظ سے یہ تعداد مختلف ہو سکتی ہے سرد موسم میں بھی پانی کی مناسب مقدار کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔

مناسب مقدار میں پانی پینے سے جسم سے پیشاب فضلے اور پسینے کے ذریعے زہریلا مواد خارج ہوتا ہے جوڑوں کی صحت بہتر رہتی ہے قبض سے بچنا ممکن ہوتا ہے اور جسم کے ٹشوز کو تحفظ ملتا ہے۔

کھانے کے آدھا گھنٹہ بعد نیم گرم پانی پینا کسی بھی ہاضمے والی دوا سے بہتر کام کرتا ہے۔ تیزابیت کو فوری کم کرتا ہے۔