1. ہوم/
  2. مضامین/
  3. اینٹی بائیوٹکس

اینٹی بائیوٹکس

اینٹی بائیوٹکس کیخلاف مدافعت رکھنے والے بیکٹیریا ان لوگوں پہ ہنستے ہیں جو ارتقا پہ یقین نہیں رکھتے۔اینٹی بائیوٹکس کیخلاف مدافعت قدرتی انتخاب/نیچرل سلیکشن کا سب سے بڑا ثبوت ہے جس میں بیکٹیریا قدرتی طور پہ اپنے ڈی این اے کو یوں بدلتا رہتا ہے کہ وہ ان کے خلاف مدافعت پا لیتا ہے۔

ارتقاء اس بات کی دلیل ہے کہ ماحولیاتی دباؤ کے خلاف کسی بھی جاندار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنا اور سب سے بہترین کا زندہ رہنا، Survival of the fitest۔

اینٹی بائیوٹکس کا عمل ایک ماحولیاتی دباؤ ہے جو کہ بیکٹیریا کے اندر ایسی میوٹیشن کو کرواتا ہے جو اس کو اس ماحول میں بہتر طریقے سے جینے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ اور جو ایسا نہیں کر پاتے وہ ناپید ہوجاتے ہیں۔ اور یہ میوٹیشن نسل در نسل چلتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیکٹیریا میں اتنا تیز ارتقاء کیوں ہوتا ہے؟

تو جناب جو بیکٹیریا کا جنریشن ٹائم یا نئی نسل پیدا کرنے کا دورانیہ ہے وہ بہت مختصر اور تیز ہے۔ فقط آدھے گھنٹے میں انکی کئی نسلیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جتنے انسان ہزار سال میں پیدا ہوتے ہیں اتنے بیکٹیریا چند دنوں میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ مطلب وہ تبدیلی جو ہم کسی ایک نقدیرہ عنصر کیخلاف ہزار سالوں میں حاصل کرتے ہیں ایک بیکٹیریا وہی تبدیلی چند دنوں میں حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہی انکے تیز ارتقاء کی وجہ ہے۔ اور یہ نیچرل سلیکشن کا ایک ثبوت بھی ہے۔

اب ایک اور سوال ہے کہ بیکٹیریا سے کوئی نئی نوع وجود میں کیوں نہیں آ رہی؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیکٹیریا جو کہ یک خلوئی جاندار ہیں ان سے ایک کثیر خلوئی جاندار کے وجود میں آنے کے لئے اتنا کم وقت نا کافی ہوتا ہے۔ پہلا یک خلوئی جاندار آج سے ساڑھے تین ارب سال پہلے وجود میں آیا لیکن مسلسل ایک ارب سال کی جد و جہد کے بعد اسکے کچھ خلئے ارتقاء پذیر ہو پائے جن سے کثیر خلوئی جاندار وجود میں آئے۔

اب اگر آپ بیکٹیریا کو کئی لاکھ سال تک یونہی اینٹی بائیوٹک دیکر مضبوط کرتے رہیں گے تو تب جا کر ان سے کوئی ایسا جاندار بن سکے گا جو کہ اس وقت موجود کسی طرح کی بھی بیماری کا شکار نہیں ہو سکے گا۔ لیکن وہیں چند سو سالوں میں ان میں صرف اتنا ارتقاء ہوا ہے کہ آج بہت سے بیکٹیریا عام اینٹی بائیوٹک جو کہ آج سے کئی دہائیاں پہلے استعمال ہوا کرتی تھی ان کیخلاف مکمل طور پہ مدافعت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے اندر ایسی صلاحتیں پیدا ہو چکی ہیں کہ ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا لیں کہ پاکستان میں اس وقت پوری دنیا میں موجود سب سے عجیب و غریب ٹائیفائڈ موجود ہے اسے ہم XDR کہتے ہیں یہ ٹائیفائڈ اتنا ارتقا کر چکا ہے کہ اب اس پر عام اینٹی بائیوٹک ادویات اثر ہی نہیں رکھتیں۔ اس کے لئے ایک خاص دوائی بنائی گئی جسے ازتھرو مائسن کے نام سے جانا ہے۔ یہ ٹائفائڈ حیدرآباد اور کراچی سے شروع ہوا تھا اور باقی دنیا میں بھی بعد میں رپورٹ ہوا۔

اس بات سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیسے بیکٹیریا ارتقا پذیر ہوکر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔